مغربی ممالک اور یورپ کے عوام، جو ماضی میں کسی حد تک فلسطین پر اسرائیلی مظالم سے لاتعلق رہے تھے، اور ان ممالک کا میڈیا صرف اسرائیل کی حمایت کو اپنا فرض منصبی سمجھتا رہا ہے، غزہ کی پٹی پر اسرائیلی کی حالیہ وحشیانہ بمباری پر چلا اٹھا ہے۔
امریکا، براعظم امریکا، جنوبی افریقا اور یورپ کے ممالک میں اہالیان غزہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ سماجی انجمنیں اور ذرائع ابلاغ بھی اسرائیلی جارحیت کی کھلے الفاظ میں مذمت کرنے لگے ہیں۔ کئی ملکوں کے ذرائع ابلاغ کی اسرائیل کی طرف داری پر ان سے وابستہ صحافی بہ طور احتجاج اپنی ملازمت سے استعفے دے رہے ہیں۔ تبدیلی کی یہ لہر خطہ یورپ سمیت دنیا بھر میں دیکھی جا رہی ہے۔
اگرچہ یورپی ممالک کی حکومتوں کے طرز عمل اور اسرائیل نواز پالیسی میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ مغربی حکومتوں کو غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بربریت کی مذمت کی توفیق تو نہیں ہوئی ہے لیکن وہاں کے عوام اپنی حکومتوں کی پالیسی کے برعکس سڑکوں پر ہیں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہر فورم پر پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
جرمنی میں غزہ کی پٹی کی حمایت اور اسرائیل مخالف احتجاجی ریلی میں شریک ایک طالبہ نے اپنی حکومت کی فلسطین بارے پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس نے کہا کہ "دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ ہماری[جرمن] حکومت فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم پرنہ صرف خاموش ہے بلکہ الٹا اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے۔ غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے کسی صورت میں انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ یہ سرا سر ظلم ہے"۔
یورپی ملک بولیویا کی لیبر یونین کے سیکرٹری جنرل نے غزہ کے بارے میں مغربی ممالک کی پالیسیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "بولیویا کے عوام فلسطینیوں کے دکھوں میں
برابر کے شریک ہیں۔ غزہ کے مظلوموں کے خون کے ایک قطرے اور ایک آنسو پر جو دکھ فلسطینیوں کو ہوتا ہے وہی ہمیں بھی محسوس ہوتا ہے"۔
غزہ سے اظہار یکجہتی محض احتجاجی ریلیوں تک محدود نہیں بلکہ اسرائیل نوازی کا مظاہرہ کرنے والے نشریاتی اور اشاعتی اداروں کو ان کے اپنے کارکنوں کی بھی سخت مخالفت کا سامنا ہے۔ امریکا کے معروف صحافی جون اسٹیوارٹ نے اپنی حکومت اور صدر اوباما کی فلسطین۔ اسرائیل امن مذاکرات کی بحالی کی خواہش کو ایک "مذاق" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ کاش واشنگٹن ایک مرتبہ اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے تل ابیب کو "نا" کر دیتا۔
برطانیہ کے صحافی اور تجزیہ نگار سیموس میلنی نے اخبار"گارڈین" میں لکھے اپنے ایک تازہ مضمون میں اسرائیل کو "غاصب ریاست" قرار دے کر فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی فوجوں کو نکالنے کا مطالبہ کیا۔ برطانیہ میں عوام سوشل میڈیا کے ذریعے کم وبیش انہی خیالات کا اظہار کر رہے ہیں جن کا سیموس نے کیا ہے۔
فلسطینیوں سے یکجہتی کرتےہوئے اچھلی بھلی نوکری کو پاؤں کی ٹھوکر رسید کرنے والے "بی بی سی" کے"ماکس کیسیر" کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ "ٹیوٹر" پر اس نے اپنے استعفے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ "ادارے کی جانب سے اس پر دباؤ تھا کہ وہ غزہ جنگ کے بارے میں کسی بھی سیاق وسباق میں اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرانے سے گریز کرے"۔
بی بی سی کے ایک دوسرے نامہ نگار"جیرمی بوین" کو اسرائیل کی جانب سے بے دخل کیے جانے کی وجہ بھی غزہ کی اصل تصویر کو سامنے لانا بنی ہے۔ جیرمی کو اسرائیل سے بے دخلی کی سزا اس لیے دی گئی کہ اس نے اپنی رپورٹ میں غزہ کے ساحل پر اسرائیلی بمباری میں چار فلسطینی بچوں کی شہادت کی خبر دیتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ کم سے کم ان بچوں کے قتل میں تو حماس ملوث نہیں ہے۔